Adeeba Nazar

Add To collaction

غروبِ محبت کی کہانی -


”اگر اس نے مجھ سے ہی بات کرنی ہوتی تو وہ خود فون کر لیتی،یہ بات مجھے دس دن پہلے کیوں سمجھ میں نہیں آئی،ملنا ہوتا تو مل لیتی… وہ شیراز سے محبت کرتی تھی اس نے یہ بات چھپائی،اچھا ہی کیا… قدسیہ کا جو جی چاہا اس نے کہا،ہم سب کو ایسے ہی کرنا چاہئے… جو جی میں آئے کرو… کسی کیلئے احساس بن جاؤ،کسی کیلئے زبان… کسی کو روند ڈالو… کسی کو مسل کر پھینک دو… جو جی میں آئے کرو۔
”عفان!“ میں نے اُسے ریلیکس کرنے کیلئے اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھا،اس نے میرے ہاتھ کو نرمی سے ایک طرف کر دیا،”میں ٹھیک ہوں…“
”جب میں اس سے ملی تو وہ بہت خوش نظر آ رہی تھی،ہمیں اس کی خوشیوں کیلئے دعا گو ہونا چاہئے۔“
”اُسے خوش ہی ہونا چاہیے تھا۔ میں اس کے لیے دُعا گو ہوں…جو بددعا مجھے دی گئی میں اس کیلئے دعا گو ہوں“ وہ پھر سے ہنسا وہ بار بار اپنا تمسخر اڑا رہا تھا،تھک ہی نہیں رہا تھا،بس ہی نہیں کر رہا تھا،مجھے کبھی اندازہ ہی نہیں ہو سکا کہ قدسیہ کون ہے،کیا ہے… میرے ایک کلاس فیلو نے ایک بار مجھے جتایا تھا کہ انسانوں کی سمجھ بوجھ کے معاملے میں،میں ایک بہت بڑا ڈفر ہوں،اس نے کہا مجھے صرف کتابیں ہی پڑھنی چاہئے،انسان میں نہیں پڑھ سکتا… ٹھیک کہا تھا اس نے،مجھے صرف کتابیں ہی پڑھنی چاہئے۔
“ بے دلی سے اٹھ کر وہ چلا گیا،قدسیہ کی شادی ہو چکی ہے،پہلے اسے یقین نہیں آ رہا تھا اب آ چکا تھا اور یہی کافی تھا۔
###
قدسیہ کا ذکر پھر نہیں دہرایا گیا،ہم دونوں کے درمیان میں سے وہ ہمیشہ کیلئے نکل گئی،دبئی جانے سے پہلے قدسیہ نے مجھ سے بات کی،چند منٹوں کی بات اس کی طویل خاموشی اور اس کی روانگی کی اطلاع پر مشتمل تھی،اس کے بعد میں نے اپنا نمبر تبدیل کر لیا،مجھے معلوم تھا کہ وہ بھی مجھ سے اب رابطہ نہیں رکھے گی کیونکہ میں اور عفان ایک ہی کالج میں تھے اور ہم دونوں دوست تھے… میں اسے عفان کی یاد دلاتی رہوں گی۔
وقت کے ساتھ ساتھ عفان پہلے جیسا ہی بن گیا،وہ جب بھی مجھ سے ملتا،پہلے سی ہی خوش دلی سے ملتا،مجھے نوٹس بنا کر دیتا،پڑھنے میں میری مدد کرتا،پھر بھی تبدیلی آ چکی تھی اور بہت بڑی آئی تھی،اس تبدیلی کی واضح شکل تھی نہ ہی نام،لیکن میں جانتی تھی ایسا ہو گیا ہے،اس تبدیلی کے نشانات مٹانے کیلئے مجھے ایک لمبا انتظار کرنا تھا۔
اب میں عفان کی اکلوتی دوست تھی اس کے دو قریبی کلاس فیلوز کے علاوہ،پہلے بھی وہ بہت پڑھتا تھا اب اور زیادہ پڑھنا شروع کر دیا تھا، اس نے اور اس پڑھائی میں انسانی چہرے بھی شامل ہو چکے تھے،وہ جو ڈفر تھا اب ڈفر بنے رہنا نہیں چاہتا تھا،وہ آس پاس نظریں دوڑاتا رہتا اور کپل بنے لڑکے لڑکیوں کو دیکھتا رہتا،اکثر ٹکٹکی باندھے،وہ ان کا جائزہ لیتا تھا ان کا مشاہدہ کرتا تھا،وہ اکثر اپنے دوستوں سے سنے افیئرز اور سکینڈل مجھے سنا رہا ہوتا،اب اسے معلوم ہوتا تھا کہ کس کا افیئر کس کے ساتھ چل رہا ہے،پہلے اس کا کس کے ساتھ تھا،اب کس کے ساتھ ہے اور اب یہ موجودہ افیئر کب تک ٹوٹ جائے گا اور اس کی پیشگوئی کے مطابق بریک اپ ہو جاتا۔
” فرزین شاہ کو جانتی ہو؟ میری کلاس فیلو؟“
عفان کسی لڑکی کا خاص ذکر کر رہا تھا حیرت کی بات تھی۔
”فرسٹ ایئر میں وہ مجھ میں انٹرسٹڈ تھی۔“
”تو!“
”تو… اب کالج میں اس کے اور ازمیر کی سچی محبت کے قصے مشہور ہیں“ عفان نے لفظ سچی کو کھینچا۔ ”میں نے ازمیر کو جاکر بتا دیا کہ یہ مجھے ڈیٹ کرنا چاہتی تھی اور یہ خود چل کر میرے پاس آئی تھی،سچوایشن دیکھنے والی ہے ان دونوں کے درمیان کی،لوبرڈز آجکل فائٹرز بنے ہوئے ہیں۔
”تم نے کیوں بتایا ازمیر کو“ مجھے بہت شاک لگا اس کی یہ بات سن کر،وہ کن حرکتوں پر اتر آیا تھا۔
”میں نے سوچا ازمیر کو بھی معلوم ہونا چاہئے کہ جس کی محبت میں وہ مبتلا ہے وہ پہلے کتنوں کو لفٹ کروا چکی ہے۔“ وہ کہہ کر پھر سے ہنسنے لگا۔
”بچ“ عفان نے بے انتہا نفرت سے کہا،میرا منہ اور آنکھیں پوری کھل گئیں،عفان گالی دے رہا تھا وہ بھی ایک لڑکی کو۔
”ایم سوری“ میری شکل دیکھتے ہی اسے اپنی غلطی کا احساس ہوا،ایسے ہی غصے میں منہ سے نکل گیا،وہ شرمندہ نظر آنے لگا۔ ”اٹس اوکے،میں سمجھ سکتی ہوں… ورنہ تم…“
”ورنہ میں؟“
”ورنہ تم اس طرح بی ہیو نہیں کرتے۔“
”ہاں! کرتا تو نہیں تھا لیکن اب کبھی بھی کچھ بھی ہو سکتا ہے،کچھ بھی کہا جا سکتا ہے… کائنات کی سب سے بے اعتبار چیز انسان ہے… سب سے زیادہ تغیر کا شکار… تبدیلی کا خواہاں… چھپا رستم… اس کی سرشت میں سچائی رچی بسی ہی نہیں… ایمان اس کے کونوں،کناروں سے نکل جاتا ہے،بے ایمانی اس کا نصاب ہے۔
میں نے اس کی طرف دیکھتے رہنے کا کام کیا وہ واقعی باکمال تھا کیا کمال کی کتابیں پڑھ رہا تھا وہ انسانوں سے متعلق… اس نے مجھے پریشان کر دیا تھا،ایک بے چین لہر میرے آرپار ہونے لگی،مجھے عفان کی یہ تبدیلی زہر لگی،اس کا کیا جاتا تھا اگر وہ پہلے والا عفان ہی بنا رہتا،میں نے اس سے محبت کی تھی اور میری محبت کا یہ حق تھا کہ میں اسے پا لیتی اور بس… اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ وہ یہ سب سوچتا اور کرتا۔
بہت دن گزرے ایک دن میں نے اپنے لمبے بھورے بالوں کو سمیٹ کر دائیں شانے پر پھیلا لیا اور اس کی طرف دیکھا۔
”کیا اب میں تمہاری حور نہیں رہی عفان“ مجھے یہ سوال کبھی تو کرنا ہی تھا اور میں نے کر دیا۔ اس نے چونک کر میری طرف دیکھا،اس نے شاید اس حور کو اب نوٹ کیا تھا قدسیہ کی غیر موجودگی میں… قدسیہ کو دل سے نکال کر…
”تم ابھی بھی حور ہی ہو“ اس نے ”میری“ کا لفظ استعمال نہیں کیا تھا،مجھے جلدی نہیں تھی،مجھے معلوم تھا کہ وہ یہ لفظ آج نہیں تو کل ضرور استعمال کرے گا۔
###
بیرونی اور اندرونی طور پر اس میں جتنی بھی تبدیلیاں آنے لگی تھیں،اس کا اثر اس نے مجھ پر پڑنے نہیں دیا تھا،میرے ساتھ وہ پہلے کی طرح ہی تھا میں اس کی وہی دوست تھی جو قدسیہ کی موجودگی میں ہوا کرتی تھی،میں اس کا جتنا خیال رکھ سکتی تھی رکھنے لگی تھی۔ لیکن بات ایک اچھی دوست تک ہی رہی حتیٰ کہ اگر میں اسے آدھی رات کو جگا کر بات کرنے پر اصرار کرتی تب بھی یہ دوستی والا،رشتہ ہی رہتا اور اب مجھے یہ رشتہ نہیں چاہئے تھا،وقت گزر رہا تھا اور میری یہ خواہش شدید تر ہو رہی تھی کہ میں اس کا ہاتھ تھام لوں اور اسے سب کہہ دوں… وہ سب جو میرے دل میں اس کیلئے تھا،اسے یہ معلوم ہونا چاہئے تھا کہ حوریہ اس پر کیسے مر مٹی ہے… وہ اس کا دل ہے اس کی جان ہے… وہ اس کیلئے ہر جائز ناجائز بھول گئی ہے۔
پھر ایک دن میں نے سب کچھ کہہ دیا،اس سے پہلے کہ وہ امریکہ چلا جاتا مزید پڑھنے کیلئے میں نے خود ہی اُسے سب بتا دیا،اب وہ تو مجھے یہ کہنے سے رہا کہ وہ میرے بغیر مر جائے گا،کاش یہ نوبت اس پر آتی۔
”مجھے لفظ ”محبت“ سے نفرت ہے حوریہ کوئی اور بات کرو۔“

...............

   0
1 Comments

Maria akram khan

09-Sep-2022 06:06 PM

❤️❤️❤️❤️

Reply